مندرجات کا رخ کریں

پارسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پارسی زرتشت کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔ عربوں نے ایران فتح کیا تو ان میں سے کچھ مسلمان بن گئے، کچھ نے جزیہ دینا قبول کیا اور باقی (آٹھویں،دسویں صدی عیسوی) ترک وطن کرکے ہندوستان آ گئے۔

فائل:300px-Parsi wedding portrait with Dastur MN Dhalla.jpg
پارسی خاندان

ان کا دعوی ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زردشت یا زرتشت پر نازل ہوا تھا۔ پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کی بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ کھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ ’’منار خاموشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو، مثلا بمبئی، کراچی۔ جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے، لاہور كا پارسی قبرستان۔

جسمانی طہارت اور کھلی فضا میں رہائش پارسیوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ پاکیزگی کی مقدس علامت کے طور پر، ان کے معابد اور مکانات میں، ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔ خواہ وہ چراغ ہی ہو۔ ہندو ’’سناتن دھرم‘‘ اور یہودیوں کی طرح، پارسی مذہب بھی غیر تبلیغی ہے۔ یہ لوگ نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور نہ ان کے ہاں شادی کرتے ہیں۔ ان کڑی پابندیوں کے باعث ابھی تک دوسرے طاقتور مذاہب ’’اسلام، ہندو مت، مسیحیت‘‘ کے ثقافتی اثرات سے محفوظ ہیں۔ حصول علم ان کا جزوایمان ہے۔ ہر پارسی معبد میں ایک اسکول ہوتا ہے۔ دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد لاکھوں میں ہے اور اس میں بھی ان لوگوں میں شادی کے رجحان کے کم ہونے سے مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔

آبادی

[ترمیم]

تاریخی آبادی

[ترمیم]

پارسی مذہب کا بانی زرتشت موجودہ شمالی ایران میں 628 قبل ازمسیح پیدا ہوا اور 551 قبل ازمسیح دنیا سے رخصت ہوا اس کی کتاب اوستا کہلاتی ہے کسی زمانے میں پارسی مذہب فارس کا سرکاری مذہب رہا جب ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو ایران کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا پارسیوں کی اکثریت تو ایران میں ہی رہی لیکن کئی پارسی خاندان ہندوستان آ گئے کوئٹہ ،بمبئی، مالابار اور کراچی میں کئی پارسی خاندان آکر آباد ہو گئے۔

موجودہ آبادی

[ترمیم]

پارسیوں کا بنیادی وطن شمالی ایران ہے اور آج بھی تقریباً 25000 پارسی وہاں آباد ہیں لیکن اس وقت دنیا میں اگر کسی ایک جگہ سب سے زیادہ پارسی لوگ آباد ہیں تو وہ ممبئی ہے ویسے دنیا میں آتش پرستوں یعنی زرتشت کو ماننے والے پارسیوں کی تعداد چند لاکھ ہے پاکستان سے گذشتہ تیس برسوں میں بہت سے پارسی خاندان برطانیہ ،امریکا اور کینیڈا منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کی اکثریت بمبئی اوراس کے گرد و نواح میں آباد ہے۔ یہ لوگ عموما تجارت پیشہ ہیں اور سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بمبئی اور کراچی کے کئی اسکول ہسپتال اور کتب خانے ان کے سرمائے سے چل رہے ہیں۔ ہندوستان کا پہلا فولاد کا کارخانہ جمشید ٹاٹا نے جمشید پور میں بنائی۔ ہندوستان میں جدیدسٹیج ڈرامے اور فلم سازی کے بانی بھی یہی ہیں۔ آج دنیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف ایک لاکھ چالیس ہزار پارسی باقی رہ گئے ہیں جن میں سے بیشتر بھارت میں آباد ہیں۔کم تعداد میں ہونے کے باوجود پارسی بھارتی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹاٹا خاندان سمیت ملک کے اہم صنعت کار پارسی ہیں۔

سکھر

[ترمیم]

پہاڑی چاڑھیوں والے سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی سینٹ سیویئر چرچ والی چاڑھی اترتے ہی ایک قدیمی عمارت نمودار ہوتی ہے۔یہ قدیمی عمارت پارسیوں کی عبادت گاہ اور دھرم شالا ہوا کرتی تھی۔ سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔ ماما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے اسکول ہوا کرتے تھے۔کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔

تاریخِ پاکستان میں پارسیوں کا کردار

[ترمیم]

حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پزیر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پارسی برادری کا اہم کردار رہا ہے پارسی کمیونٹی نے پاکستان کی تعمیر وترقی میں ،باوجود بہت ہی کم ہونے کے، اہم ترین کردار ادا کیا ہے ایک پارسی شخصیت ہی نے قائد اعظم کو سیاست کے میدان میں متعارف کرایا تھا پھر قائد اعظم نے ایک پارسی خاتون کو مسلمان کرکے شادی کی۔

پارلیمنٹ میں نمائندگی

[ترمیم]

پاکستان اور بھارت میں ماضی قریب میں یعنی پندرہ سال قبل تک پارسیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی رہی ہے لیکن پاکستان میں اب ان کی تعداد 18سو تک رہ گئی ہے اس لیے خدشہ یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں شائد ان کو ہندووؤں، بدھ مت کے پیروکاروں، سکھوں اور مسیحیوں کے مقابلے میں اقلیت کی بنیاد پر کوئی نشست نہ ملے جہاں تک قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کسی اقلیتی نمائندے کی شرکت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی پارسی برادری کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے ہمارے ہاں خود اقلیت کے لوگ یعنی مسیحی، سکھ، ہندو، بدھ مت کے ماننے والے بھی عموماً پارسی شخصیت پر اتفاق کرلیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارسی مجموعی طور پر تعداد میں کم ہیں پھر ان کی اقتصادی اور تعلیمی حالت بہت معیاری ہے۔

تعداد میں کمی کی وجوہات

[ترمیم]

دنیا میں پارسیوں کی تعداد میں کمی سے مستقبل قریب میں ان کے دنیا سے ختم ہوجانے کے اندیشے بڑھ رہے ہیں جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں سب سے بڑا مسئلہ تو ان میں آبادی میں اضافے کے مقابلے میں کمی کا رحجان ہے۔ اس وقت پارسیوں کی آبادی میں پوری دنیا میں 18سال سے کم عمر افراد کا تناسب کل آبادی کا 18فیصد ہے جب کہ 18سے 60 برس تک عمروں تک پارسی افراد کا تناسب 31فیصد ہے اور باقی آبادی 60برس کی عمر سے بھی زیادہ عمررسیدہ ہے اس طرح ان میں شرح پیدائش شرح اموات کے مقابلے میں بہت کم ہے اور پھر امریکا اور کینیڈا میں اب یہ لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں بھی رچا رہے ہیں حالانکہ ماضی میں یہ لوگ نہ دوسرے مذہب کے فرد کو شادی میں اپنی لڑکی دیتے تھے اور نہ باہر سے یعنی دوسری مذہب کے فرد سے شادی کرتے تھے۔ پارسی کمیونٹی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے اور بعید نہیں کہ عنقریب یہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائے۔

پاکستان میں معروف شخصیات

[ترمیم]

پارسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اردشیر کاؤس جی 13 اپریل 1926 میں کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے 1988 سے 2011 تک مستقل ڈان اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم لکھنے کے فرائض انجام دیے، آپ کا شمار پاکستان کے انتہائی مستند اور بے باک کالم نگاروں میں کیا جاتا تھا۔ وربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول اور ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج سے تعلیم کمل کرنے کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار شپنگ سے منسلک ہو گئے۔ کاؤس جی کے ان کی بیوی نینسی دنشا سے دو بچے ہیں، ان کی بیٹی کراچی میں رہائش پزیر اور خاندانی کاروبار سے منسلک ہیں جبکہ ان کے بیٹے جو ایک معمار ہیں وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ وہ ایک کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بزنس مین اور سماجی کارکن بھی تھے۔

بھارت میں پارسی اہم شخصیات

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
    • Kulke, Eckehard: The Parsees in India: a minority as agent of social change. München: Weltforum-Verlag (= Studien zur Entwicklung und Politik 3), ISBN 3-8039-00700-0
  • Ervad Sheriarji Dadabhai Bharucha: A Brief sketch of the Zoroastrian Religion and Customs
  • Dastur Khurshed S. Dabu: A Handbook on Information on Zoroastrianism
  • Dastur Khurshed S. Dabu: Zarathustra an his Teachings A Manual for Young Students
  • Jivanji Jamshedji Modi: The Religious System of the Parsis
  • R. P. Masani: The religion of the good life Zoroastrianism
  • P. P. Balsara: Highlights of Parsi History
  • Maneckji Nusservanji Dhalla: History of Zoroastrianism; dritte Auflage 1994, 525 p, K. R. Cama, Oriental Institute, Bombay
  • Dr. Ervad Dr. Ramiyar Parvez Karanjia: Zoroastrian Religion & Ancient Iranian Art
  • Adil F. Rangoonwalla: Five Niyaeshes, 2004, 341 p.
  • Aspandyar Sohrab Gotla: Guide to Zarthostrian Historical Places in Iran
  • J. C. Tavadia: The Zoroastrian Religion in the Avesta, 1999
  • S. J. Bulsara: The Laws of the Ancient Persians as found in the "Matikan E Hazar Datastan" or "The Digest of a Thousand Points of Law", 1999
  • M. N. Dhalla: Zoroastrian Civilization 2000
  • Marazban J. Giara: Global Directory of Zoroastrian Fire Temples, 2. Auflage, 2002, 240 p, 1
  • D. F. Karaka: History of The Parsis including their manners, customs, religion and present position, 350 p, illus.
  • Piloo Nanavatty: The Gathas of Zarathushtra, 1999, 73 p, (illus.)
  • Roshan Rivetna: The Legacy of Zarathushtra, 96 p, (illus.)
  • Dr. Sir Jivanji J. Modi: The Religious Ceremonies and Customs of The Parsees, 550 Seiten
  • Mani Kamerkar, Soonu Dhunjisha: From the Iranian Plateau to the Shores of Gujarat, 2002, 220 p
  • I.J.S. Taraporewala: The Religion of Zarathushtra, 357 p
  • Jivanji Jamshedji Modi: A Few Events in The Early History of the Parsis and Their Dates, 2004, 114 p
  • Dr. Irach J. S.Taraporewala: Zoroastrian Daily Prayers, 250 p
  • Adil F.Rangoonwalla: Zoroastrian Etiquette, 2003, 56 p
  • Rustom C Chothia: Zoroastrian Religion Most Frequently Asked Questions, 2002, 44 p
pFad - Phonifier reborn

Pfad - The Proxy pFad of © 2024 Garber Painting. All rights reserved.

Note: This service is not intended for secure transactions such as banking, social media, email, or purchasing. Use at your own risk. We assume no liability whatsoever for broken pages.


Alternative Proxies:

Alternative Proxy

pFad Proxy

pFad v3 Proxy

pFad v4 Proxy