مندرجات کا رخ کریں

زرتشت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زرتشت
 

معلومات شخصیت
پیدائش رے [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات بلخ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد پوروشسب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ دوغدو   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ نبی ،  مذہبی بانی ،  شاعر ،  مصنف [3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اوستائی زبان [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زرتشت قدیم فارس کے مفکر اور مذہبی پیشوا تھے۔

نام

[ترمیم]

اوستا میں ممدوح کا نام زرتُشتَرَہ آیا ہے۔ لیکن مختلف میں اختلاف قاعدہ ہجا نے مختلف صورتیں پیدا کردی ہیں۔ چنانچہ لاطینی میں زوروایسٹریس بنا۔ بلکہ اسی پر بس نہیں ہوا مختلف مصنفین نے اپنے مذاج کے موافق مختلف صورتیں اختیار کر لیں۔ مثلاً زرُوادوس، زرادس، زروآٹرس، زاراٹوس، زارس وغیرہ۔ آرمینیا کا ایک مصنف زرویسٹ لکھتا ہے اور دوسرا زڈرادوٹس۔ تیسرا زراڈشٹ۔ انگریز زوراسٹر کہتے ہیں۔ مصنفین عرب اگرچہ مختلف طور پر ہجا کرتے ہیں۔ لیکن پہلوی صورت سے باہر نہیں جاتے۔ پہلوی والے عموماً زَرَتُست لکھتے ہیں۔ مروجہ فارسی والے زرتست، زردشت، زردست، زردہشت، زراتست، زرادست، زراتھست، زرادھشت اور رزرہست لکھتے ہیں۔ لیکن اصلیت ان سب کی ہی زرتشترہ ہے۔

ظاہر ہے کہ جب ہجا میں اختلاف ہے تو لفظ کے معنی میں بھی اسی قدر اختلاف ہوگا۔ ہر شخص نے اپنا زور طبع دکھایا ہے۔ اور ایک نئی بات اختراع کی ہے۔

حسب نسب

[ترمیم]

زرتشت کے سلسلہ نسب کو دیکھا جائے تو گو وہ بدھ کی طرح بادشاہ کی پیٹھ اور ملکہ کے پیٹ سے نہ تھے لیکن تھے خاندان شاہی سے۔ منوچہر کی شجاعت رکاب میں ایرج کی حمیت دل میں فریدوں کا خون رگوں میں تھا اور پینتالیسویں پشت میں جہان بھر کے سب سے پہلے بادشاہ اور دنیا بھر[5] کے باوا آدم کیومرث سے جا ملتے ہیں۔

ان کا سلسلہ نسب پہلوی مصنفین نے یوں بیان کیا ہے: زرتشت بن پوروشسپ بن پیتیرسپ بن ہردرشن بن ہردار بن اسپنتمان بن ویداشت بن نایزم (یا ہایزم) بن راجشن (یا ایرج) بن دورانسرو (یا دورشیریں) بن منوچہر بن ایرج بن فریدوں۔

مسعودی نے اس کو (غالباً معرب کر کے) یوں لکھا ہے: زرتشت بن بورشسف بن فذرسف بن اریکدسف بن ہجدسف بن حجیش بن باتیر بن ارحدس بن ہردار بن اسفنتمان بن واندست بن ہایزم بن ایرج بن دورشیریں بن منوچہر بن ایرج بن فریدوں۔

ابتدائی زندگی

[ترمیم]

افغانستان کے مقام گنج میں پیدا ہوا۔ جوانی گوشہ نشینی ، غور و فکر اور مطالعے میں گزاری۔ سات بار بشارت ہوئی۔ تیس برس کی عمر میں اہورا مزدا (اُرموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرقی ایران کا رخ کیا اور خراسان میں کشمار کے مقام پر شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے اس کے پیرو ہو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مذہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران میں بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارا اعظم نے زرتشتی مذہب کو تمام ملک میں حکماً رائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مذہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل اس کے پیرو ، جنہیں پارسی کہا جاتا ہے ، ہندوستان ، پاکستان ، افریقا ، یورپ میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

عقائد

[ترمیم]

زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں (یا دو خدا) کارفرما ہیں۔ ایک اہورا مزدا (یزداں) جو خالق اعلیٰ اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ جد اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوش حالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہوگی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہورا مزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جاتا ہے کہ کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشے رہتی ہے غالباً اسی لیے انھیں آتش پرست سمجھ لیا گیا ۔ عرب انھیں مجوسی کہتے تھے۔یہ دینِ اسلام میں کفر ہے۔

شیطان کا تصّور

[ترمیم]

عموماً ماہرین کا ماننا ہے کہ قدیم ایرانی نبی زرتشت (فارسی میں زرتشت اور یونانی میں زوراسٹر کہلائے جانے والے) 1500 سے 1000 قبل مسیح کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے۔ زرتشت سے پہلے، قدیم ایرانی قدیم آریائی مذہب کے دیوتاؤں کی عبادت کرتے تھے، جو ہندو آریائی مذہب یعنی ہندو دھرم کے ہم پلہ تھے۔

زرتشت نے مختلف خداؤں کی پوجا کے اس عمل کو رد کیا اور یہ پیغام دیا کہ صرف ایک معبود ’اہورا مزدا‘ یعنی حکمت کے رب کی پرستش ہونی چاہیے۔ اس عمل کے ذریعے انہوں نے نہ صرف ایرانیوں اور ہندو آریائیوں کے درمیان ایک بڑی تقسیم پیدا کی بلکہ وحدانیت یعنی ایک خدا کے عقیدے کو بھی متعارف کروایا۔

دنیا کے بڑے مذاہب، خاص طور پر ’بڑے تین‘ مذاہب یعنی یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں شامل واحد خدا کا تصور بنیادی طور پر زرتشتی نظریہ ہی نہیں تھا بلکہ جنت و دوزخ کے خیالات، یومِ جزا، انسانیت کی تخلیق، اور فرشتوں و جنوں کی ابتدا بھی زرتشت کی تعلیمات اور بعد کے زرتشتی متون سے اخذ کی گئی ہیں۔

یہاں تک کہ شیطان کا تصور بھی اصل میں زرتشتی تعلیمات سے لیا گیا ہے۔ حقیقت میں، زرتشتی عقیدے کی بنیاد خدا اور نیکی و روشنی کی قوتوں (جن کی نمائندگی روح القدس یعنی سپنتا مانیو کرتے ہیں) اور اہریمن کے درمیان جدوجہد پر ہے، جو برائی و تاریکی کی قوتوں کا رہنما ہے۔

اس مذہب کے مطابق انسان کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس سمت کھڑا ہے۔ بالآخر، خدا فتح پائے گا، اور یہاں تک کہ جہنم میں سزا پانے والے بھی جنت کی برکتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔

زرتشتی عقائد نے ابراہیمی مذاہب اور دیگر مذاہب پر اپنا اثر کیسے ڈالا؟ محققین کے مطابق، ان خیالات میں سے بہت سے بابل کے یہودیوں تک اس وقت پہنچے جب فارس کے بادشاہ سائرس اعظم نے انہیں قید سے رہائی دلائی۔

یہ زرتشتی خیالات یہودیت کے مرکزی دھارے میں شامل ہو گئے، اور شخصیات جیسے بعل زباب وجود میں آئیں۔

ہخامنشی سلطنت کے دورِ عروج میں فارس کی یونانی علاقوں پر فتوحات کے بعد، یونانی فلسفے نے ایک نیا موڑ لیا۔ پہلے یونانی یہ سوچتے تھے کہ انسانوں کا اختیار محدود ہے اور ان کی قسمت بہت سے دیوتاؤں کے رحم و کرم پر منحصر ہے، جو اکثر اپنی پسند اور خواہشات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

لیکن ایرانی مذہب اور فلسفے سے قربت کے بعد، یونانیوں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ اپنی تقدیر کے مالک ہیں اور ان کے فیصلے ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ (3)

زرتشت یورپی ادب میں

[ترمیم]

زرتشتی مذہب، جو کسی زمانے میں ایران کا سرکاری مذہب تھا اور فارسی سلطنت کے وسیع و عریض علاقوں میں پھیل چکا تھا، آج ایران میں ایک اقلیتی مذہب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ زرتشتی پیروکاروں کی تعداد دنیا بھر میں بھی بہت کم رہ گئی ہے، لیکن اس مذہب کی فکری اور ثقافتی وراثت آج بھی نہ صرف ایرانی بلکہ عالمی ثقافت میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ زرتشتی مذہب کی بنیاد زرڈشت یا زرتشت نامی پیغمبر کی تعلیمات پر مبنی ہے، جو چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں وجود میں آئیں۔

زرتشتی تعلیمات کا بنیادی محور خیر اور شر کی کشمکش، روشنی اور تاریکی کی علامت، اور انسانی اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا کا تصور ہے۔ زرتشتی مذہب میں خدا کو "اہورا مزدا" کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "دانائی کا خدا"۔ اس مذہب میں خیر کی قوتوں کو روشنی اور آگ کی علامت کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، اسی لیے زرتشتی عبادت گاہوں میں آگ ہمیشہ روشن رہتی ہے۔ آگ زرتشتی مذہب میں پاکیزگی اور اہورا مزدا کی موجودگی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

زرتشتی مذہب کے اثرات نہ صرف ایرانی ثقافت بلکہ دیگر مذاہب اور ثقافتوں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسلام، یہودیت، اور عیسائیت کے کئی تصورات جیسے قیامت، جنت، جہنم، اور فرشتے زرتشتی تعلیمات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی دنیا پر زرتشتی تعلیمات کے اثرات خاص طور پر نشاۃ ثانیہ کے دور میں نمایاں ہوئے۔ دانتے کی "ڈیوائن کامیڈی" اور زرتشتی کتاب "اردا ویراف" میں جنت اور جہنم کے تصورات کی مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ زرتشتی فکر نے مغربی ادب کو متاثر کیا۔

والٹیئر، گوئٹے، اور دیگر مشہور فلسفیوں اور ادیبوں نے زرتشتی فکر کو اپنے کام میں نمایاں کیا۔ والٹیئر کی تصنیف "زدیک یا صادق" ایک زرتشتی ہیرو کی کہانی بیان کرتی ہے، جو ایرانی تاریخ اور فلسفے میں ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح، گوئٹے کی "ویسٹ-ایسٹ دیوان" اور تھامس مور کی "لالہ رخ" زرتشتی ثقافت اور وراثت کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔ سولہویں صدی کی پینٹنگ "اسکول آف ایتھنز" میں زرتشت کو روشن گلوب کے ساتھ دکھانا بھی زرتشتی فکر کی عالمی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

زرتشتی فکر کا اثر علم کیمیا، فلکیات، اور فلسفے پر بھی نمایاں ہے۔ یورپ میں زرتشت کو ایک فلسفی، جادوگر، اور نجومی کے طور پر جانا گیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زرتشتی مذہب کے اثرات مشرق سے مغرب تک پھیل چکے تھے۔ علم کیمیا کی جرمن کتاب "کلاویس آرٹس" میں زرتشتی تصورات کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ زرتشتی وراثت سائنس اور فلسفے کے میدان میں بھی اثرانداز ہوئی۔

آج بھی زرتشتی تہوار جیسے نوروز اور سده ایرانی ثقافت کا حصہ ہیں۔ نوروز، جو ایرانی نئے سال کا آغاز ہے، زرتشتی تعلیمات کے مطابق فطرت کی تجدید اور روشنی کی فتح کی علامت ہے۔ یہ تہوار ایران، افغانستان، اور دیگر ممالک میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ (4)

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Larousse ID: https://www.larousse.fr/encyclopedie/personnage/wd/150502
  2. عنوان : Encyclopædia Britannica — ربط: دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی & دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی
  3. عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  4. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/02778049X — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
  5. ایرانیوں کے اعتقاد کے بموجب
pFad - Phonifier reborn

Pfad - The Proxy pFad of © 2024 Garber Painting. All rights reserved.

Note: This service is not intended for secure transactions such as banking, social media, email, or purchasing. Use at your own risk. We assume no liability whatsoever for broken pages.


Alternative Proxies:

Alternative Proxy

pFad Proxy

pFad v3 Proxy

pFad v4 Proxy