میرا 21 ماہ کا بیٹا فواد اور میں نصف گھنٹہ سے زیادہ دیر تک ملبے تلے پھنسے رہے۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ امدادی کارکنوں نے اسے کہاں سے نکالا یا اسے کون سے ہسپتال میں بھیجا گیا۔ ہم نے تمام ہسپتالوں میں اسے تلاش کیا حتیٰ کہ مردہ خانوں میں پڑی لاشوں میں بھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
صبحی مسعود: جہاں بھی جائیں ہمیں روزانہ ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ اب بھی ہم مختصر وقفوں کے بعد بے گھر ہو رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کہاں جاؤں۔ میں نے اپنے تمام بچوں، گھر اور ہر شے کو کھو دیا ہے۔ میرے پاس جو کچھ بچا ہے وہ یہ چھڑی ہے جس کے سہارے میں چلتا ہوں۔
نفین ابو الجدیان: میرے بیٹے کو قے آنا شروع ہوئی اور مجھے سخت بخار تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ کوئی زیادہ سنگین مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس کی آنکھیں بند رہتی تھیں، وہ نہ تو میرا دودھ پیتا تھا اور نہ ہی اپنی جگہ سے ہلتا جلتا تھا۔ دو ہفتے تک اس کی یہی حالت رہی جس کے بعد معالجین کو شبہ ہوا کہ شاید اسے کوئی سنگین بیماری لاحق ہے۔ دو ہفتے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ اسے پولیو ہے۔
خدرا القد: میں 1948 میں بھی بے گھر ہوئی تھی لیکن تب بھی میں نے ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔ انتفادہ کے دوران بھی ایسا نہیں تھا۔ ہم سے جانوروں جیسا سلوک ہو رہا ہے، تاہم، جانوروں کی بھی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ ہم جذبات و احساسات رکھنے والے حیوان ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ کیوں جھیلنا پڑ رہا ہے؟ کیا جنگ ایسی ہوتی ہے؟ جنگ کبھی ایسی نہیں تھی۔
باسیم الحابل: میری قوت سماعت تقریباً نصف رہ گئی ہے اور سماعتی آلے کے ذریعے میں بموں کی آواز سن سکتا ہوں۔ مجھے اپنے خاندان کے بارے میں سنگین خدشات لاحق ہیں۔ میری بیٹی اکثر روتی رہتی ہے اور میں اسے دلاسہ دینے کی ہرممکن کوشش کرتا ہوں۔ میں اسے اپنے پاس رکھتا ہوں، سیر کرانے لے جاتا ہوں یا اسے خوش کرنے کے لیے کھلونے بھی دیتا ہوں۔ زندگی کسی نہ کسی طرح چلے جا رہی ہے۔