افغانستان: میڈیا اور آزادی اظہار رائے شدید پابندیوں کا شکار، رپورٹ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن(یونیما) کی جانب سے جاری کی گئی ایک مشترکہ رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد میڈیا کی آزادی کی سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہےکہ عبوری حکام کی جانب سے نافذ کردہ اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے ان معاہدوں کے خلاف ہیں جن کا افغانستان فریق ہے۔
غیر قانونی گرفتاریاں
اس رپورٹ میں 15 اگست 2021 سے 30 ستمبر 2024 تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں اور میڈیا کی آزادی کو لاحق بیشتر خطرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ صحافیوں، میڈیا کارکنوں اور اداروں کو سنسرشپ اور معلومات تک رسائی میں سخت رکاوٹوں کا سامنا ہے جبکہ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر امتیازی قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران256 صحافیوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار یا حراست میں رکھا گیا، 130 صحافیوں کو تشدد اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور 75 صحافیوں کو دھمکیوں یا ہراساں کئے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان صحافیوں کے خلاف یہ واقعات طالبان حکومت کے خلاف کی گئی تنقید کے باعث ہوئے۔
میڈیا پر کنٹرول اور پابندیاں
اگست 2021 میں حکومت میں آنے کے بعد سے طالبان حکومت نے ملکی میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں جن میں "11 نکاتی رہنما اصول" کے تحت ایسی نشریات پر پابندی شامل ہے جو حکومت کی اسلامی اور ثقافتی تشریحات یا قومی مفادات کے خلاف ہوں۔ اس کے علاوہ خواتین کی تصاویر یا موسیقی کی نشریات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ کام کرنے یا پروگرام میں نظر آنے کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔
مقامی میڈیا کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا کو بھی حکومت کی جانب سے کڑی نگرانی کا سامنا ہے اور خواتین صحافیوں کو پریس کانفرنسز میں شرکت کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ 2023 میں پریس کی آزادی کے عالمی دن کی تقریب میں خواتین کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جبکہ مارچ 2024 میں ایک تعلیمی تقریب میں خواتین صحافیوں کو جگہ کی کمی کا بہانہ بنا کر مدعو نہیں کیا گیا۔
طالبان حکومت کے میڈیا سے منسلک ان اقدامات کے باعث کئی میڈیا ادارے یا تو براہِ راست ریاستی دباؤ کے تحت یا ملک کی خراب معاشی صورتحال کے سبب بند ہو چکے ہیں۔ اس طرح سینئر صحافی اور میڈیا ورکرز ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس سے میڈیا کے شعبے میں تجربے کی کمی بڑھ رہی ہے۔
آزادی اظہار رائے کا تحفظ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ عوامی مباحثے اور مختلف رائے کا آزادانہ اظہار کسی بھی معاشرے میں شفافیت اور حکومتی احتساب کے لئے ضروری ہے۔ انھوں نے طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں آزادی اظہار کے حقوق کا تحفظ کرے اور صحافیوں، خاص طور پر خواتین، کو محفوظ ماحول میں کام کرنے کی اجازت دے۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف صحافیوں بلکہ افغانستان کے تمام عوام کے لئے سانس لینے کی گنجائش کو ختم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے طالبان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنائیں۔