Content-Length: 104628 | pFad | http://news.un.org/ur/story/2024/12/14206

اب کیا ہوگا جبکہ شام کے نئے حکمران نامزد دہشتگرد ہیں؟ | یو این خبرنامہ
انسانی کہانیاں عالمی تناظر
دمشق کے ایک چوک پر لوگ الاسد حکومت کے خاتمہ کی خوشی منا رہے ہیں۔

اب کیا ہوگا جبکہ شام کے نئے حکمران نامزد دہشتگرد ہیں؟

Gaith Sabbagh
دمشق کے ایک چوک پر لوگ الاسد حکومت کے خاتمہ کی خوشی منا رہے ہیں۔

اب کیا ہوگا جبکہ شام کے نئے حکمران نامزد دہشتگرد ہیں؟

انٹرویو: کونر لینن
امن اور سلامتی

مسلح گروہ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) شام کے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں سب سے بااثر فریق کے طور پر ابھرا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔

اسے شام میں خانہ جنگی کے عروج پر سلامتی کونسل کی منظور کردہ ایک بنیادی قرارداد کے تحت دہشت گرد گروہ سمجھا جاتا ہے۔ ادارے نے 2015 میں متفقہ طور پر قرارداد 2254 کی منظوری دے کر رکن ممالک سے کہا تھا کہ وہ 'ایچ ٹی ایس' کے پیشرو النصرۃ فرنٹ کے اقدامات کی روک تھام کے اقدامات کریں۔

یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا یہ پابندی 'ایچ ٹی ایس' کے ساتھ اقوام متحدہ کے زیرقیادت بین الاقوامی بات چیت اور شام میں مستحکم امن اور مضبوط و مشمولہ اداروں کے قیام کی کوششوں میں رکاوٹ ہو گی؟

علاوہ ازیں، یہ بات بھی اہم ہے کہ 'ایچ ٹی ایس' کو دہشت گرد تنظیم کے ٹھپے سے جان چھڑوانے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟

انہی سوالات کو لے کر یو این نیوز نے اقوام متحدہ میں قیام امن و سیاسی امور کے دفتر میں اعلیٰ سطحی عہدیدار کی ہو چا سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ افراد یا گروہوں پر سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیاں کیسے عائد کی جاتی ہیں اور ان پر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کون سے قوانین سے کام لیا جا سکتا ہے۔

شام کی صورتحال پر بحث کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔
UN Photo/Manuel Elías
شام کی صورتحال پر بحث کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔

کی ہو چا: 'ایچ ٹی ایس' کو مئی 2014 میں اس وقت پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا تھا جب داعش، القاعدہ اور ان تنظیموں سے وابستہ لوگوں پر پابندیوں کی نگرانی کرنے والی سلامتی کونسل کی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ہیت تحریر الشام (اُس وقت النصرۃ فرنٹ) ایک دہشت گرد گروہ ہے جس کے القاعدہ سے تعلقات ہیں۔

رواں سال جولائی میں اس کمیٹی کی نگران ٹیم نے ایک رپورٹ لکھی جس میں اس کا کہنا تھا کہ 'ایچ ٹی ایس' شمال مغربی شام میں بڑا دہشت گرد گروہ ہے۔ اس کے رہنما سمجھے جانے والے محمد الجولانی کو بھی اسی طریقہ کار کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا تھا لیکن ان کی نامزدگی 2013 میں ہوئی تھی۔

یو این نیوز: 'ایچ ٹی ایس' کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے سے اس کی سرگرمیوں پر کتنا اثر پڑا؟

کی ہو چا: اس پر تین طرح کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں اس کے اثاثے منجمد کرنا، اس سے وابستہ لوگوں پر سفری پابندیاں اور اسے اسلحے کی فروخت پر پابندی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام رکن ممالک سے ان اقدامات پر عملدرآمد کی توقع رکھی جاتی ہے۔

یو این نیوز: کیا بین الاقوامی پابندیوں کے علاوہ، ممالک یکطرفہ طور پر بھی کسی گروہ پر ایسی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں؟

کی ہو چا: جی ہاں، لیکن ان کی عائد کردہ پابندیوں کا اقوام متحدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر 'ایچ ٹی ایس' کو امریکی دفتر خارجہ میں غیرملکی اثاثہ جات کی ضبطی کے دفتر نے دہشت گرد گروہ قرار دے رکھا ہے۔

یو این نیوز: 'ایچ ٹی ایس' کو دہشت گرد قرار دینے سے شام کے مستقبل سے متعلق بات چیت اور مذاکرات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

کی ہو چا: اب تک یہ سوال سامنے آئے تھے کہ کیا امدادی ٹیمیں شام میں کام کر سکیں گی۔ تاہم، اب 'ایچ ٹی ایس' کے اثاثوں کی ضبطی پر پابندی اٹھانے کی بات ہو رہی ہے اور خاص طور پر امدادی اداروں کو اس کے زیرقبضہ علاقوں میں کام کی کھلی اجازت ملنے کے بعد اس بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

یہ بات گزشتہ ہفتے بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے کچھ وقت قبل سامنے آئی تھی۔ یہ غیرمتوقع طور پر اچھی خبر تھی کیونکہ اس وقت کسی کو شام میں اس تبدیلی کی امید نہ تھی اور 'ایچ ٹی ایس' پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد قانونی تناظر میں امدادی ادارے وہاں بلاروک و ٹوک کام کر سکتے ہیں۔

یو این نیوز: کیا دنیا میں کسی اور جگہ بھی ایسا ہوا ہے؟ مثال کے طور افغانستان میں، جہاں طالبان حکمرانوں کو دنیا کے بیشتر ممالک نے تسلیم نہیں کیا؟

کی ہو چا: جی ہاں، سلامتی کونسل افغانستان میں بھی امدادی مقاصد کے لیے ایسی گنجائش مہیا کرتی ہے۔ ایسا دیگر ممالک میں بھی ہو چکا ہے۔ یقیناً پابندیوں کا نفاذ اور ان کی تعمیل کرنا بہت اہم ہے لیکن ہم یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو بروقت امداد میسر آئے اور امدادی اداروں کو یہ خوف لاحق نہ ہو کہ ان کے اقدامات پابندیوں کی خلاف ورزی سمجھے جائیں گے۔

شام کے علاقے ادلب میں ایک ہسپتال پر حملے کے بعد کا منظر۔
© UNOCHA/Ali Haj Suleiman
شام کے علاقے ادلب میں ایک ہسپتال پر حملے کے بعد کا منظر۔

یو این نیوز: کیا بین الاقوامی بات چیت کے انعقاد کی غرض سے بھی یہ سہولت مہیا کی جائے گی۔

کی ہو چا: جی ہاں، اس حوالے سے ایسے طریقہ کار موجود ہیں جن کے تحت کوئی درخواست گزار متعدد وجوہات کی بنا پر کسی تنظیم یا گروہ پر پابندیاں اٹھانے کی درخواست دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، طالبان کے بعض رہنما سیاسی سہولت کاری کے لیے بیرون ملک سفر کی درخواست دیتے ہیں۔ لیکن طبی وجوہات سمیت اس کے دیگر اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ درخواست گزار اپنے اثاثوں کو منجمد کیے جانے سے روکنے کے لیے بھی درخواست دے سکتے ہیں۔

یو این نیوز: 'ایچ ٹی ایس' پر پابندیاں ہٹانے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا فیصلہ واپس لینے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟

کی ہو چا: اس مقصد کے لیے کسی رکن ملک کو درخواست یا اپنی تجویز پیش کرنا ہو گی جو سلامتی کونسل کی متعلقہ کمیٹی کو غوروخوض کے لیے بھیجی جائے گی۔

اس کمیٹی میں کونسل کے تمام 15 رکن ممالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور جو متفقہ طور پر اس درخواست یا تجویز کو منظور کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

یو این نیوز: کیا 'ایچ ٹی ایس' کے حوالے سے اب تک کوئی ایسی درخواست دی گئی ہے؟

کی ہو چا: ممکن ہے رکن ممالک اس مقصد کے لیے بات چیت کر رہے ہوں تاہم فی الوقت باقاعدہ طور سے ایسی کوئی درخواست یا تجویز موصول نہیں ہوئی۔









ApplySandwichStrip

pFad - (p)hone/(F)rame/(a)nonymizer/(d)eclutterfier!      Saves Data!


--- a PPN by Garber Painting Akron. With Image Size Reduction included!

Fetched URL: http://news.un.org/ur/story/2024/12/14206

Alternative Proxies:

Alternative Proxy

pFad Proxy

pFad v3 Proxy

pFad v4 Proxy