جنسی عمل سے عموماً لگنے والی بیماری ’ہرپیز‘ کے دنیا میں 84 کروڑ مریض
15 سے 49 سال کی عمر کے 84 کروڑ افراد ہرپیز یا شدید کھجلی اور چھالوں کی بیماری کا شکار ہیں جو دنیا بھر میں اس عمر کے لوگوں کی 20 فیصد آبادی ہے۔ ہر سیکنڈ میں کم از کم ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہو رہا ہے اور عالمی معیشت کو اس سے سالانہ 35 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس بیماری کا سائنسی نام 'ہرپیز سمپلیکس وائرس' ہے۔ اس میں عام طور پر منہ کے اندر اور باہر، انگلیوں اور جسم کے دیگر اعضا پر چھالے بن جاتے ہیں جو بار بار نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ ان چھالوں میں شدید کھجلی ہوتی ہے اور یہ بگڑ کر درد ناک زخم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ 2020 میں اس عمر کے 20 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ایسی علامات کا سامنا ہو چکا تھا۔
یہ بات جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے آگاہی اور ان کی روک تھام کے عالمی دن پر طبی جریدے 'سیکشویلی ٹرانسمیٹڈ انفیکشنز' میں شائع شدہ ایک نئی تحقیق میں کہی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ صحت پر ہرپیز کے منفی اثرات کو کم کرنے اور اس مرض کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے نئی ویکسین اور بہتر علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
'لاعلاج' مرض
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں ایچ آئی وی، ہیپا ٹائٹس اور جنسی بیماریوں کے خلاف عالمی منصوبوں کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میگ ڈورٹی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں ہرپیز انفیکشن کی معمولی علامات ظاہر ہوتی ہیں لیکن یہ بیماری دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لئے تکلیف اور پریشانی کا سبب بنتی ہے اور پہلے سے دباؤ کے شکار نظام ہائے صحت پر مزید بوجھ ڈالتی ہے۔ ہرپیز کے پھیلاؤ میں کمی لانے سے ایچ آئی وی کا پھیلاؤ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الوقت اس بیماری کا جو علاج دستیاب ہے اس سے مرض کی علامات میں ہی کمی آتی ہے اور تاحال کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہوا جس سے ہرپیز کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔
ہرپیز انفیکشن بعض اوقات سنگین طبی پیچیدگیوں کا سبب بھی بن سکتی ہے جس میں نیونیٹل ہرپیز بھی شامل ہے۔ یہ حمل کے آخری مراحل میں زچہ کو لاحق ہونے والی ہرپیز ہے جو اس کے نومولود بچے کو بھی منتقل ہو جاتی ہے۔
بیماری کی اقسام
اس بیماری کا سبب بننے والے وائرس کی دو اقسام ہیں جنہیں ایچ ایس وی 1 اور ایچ ایس وی 2 کہا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق 2020 میں 52 کروڑ افراد ایچ ایس وی 2 انفیکشن کا شکار تھے جو جنسی تعلقات کے دوران منتقل ہوتا ہے۔ عوامی صحت کے نقطہ نظر سے ایچ ایس وی 2 زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس میں مریض کو بار بار یہ بیماری لاحق ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ 90 فیصد مریض اسی قسم کے وائرس کا شکار ہوتے ہیں جن میں ایچ آئی وی انفیکشن کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔
ایچ ایس وی 2 کے برعکس ایچ ایس وی 1 عام طور پر بچپن میں تھوک یا جلد کے رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے اور منہ کے چھالوں یا زخموں کا سبب بنتا ہے۔ تاہم، جن لوگوں کو پہلے ایچ ایس وی 1 انفیکشن نہیں ہوا وہ جنسی تعلقات کے ذریعے جوانی میں اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ 2020 میں 37 کروڑ افراد ایچ ایس وی 1 انفیکشن سے متاثر ہوئے تھے۔ ان میں 5 کروڑ افراد بیک وقت ایچ ایس وی 2 انفیکشن میں بھی مبتلا تھے۔
سماجی بدنامی اور احتیاطی تدابیر
جائزے کے مطابق، 2016 کے مقابلے میں ایچ ایس وی 2 انفیکشن کے پھیلاؤ کی شرح میں زیادہ فرق نہیں آیا لیکن جنسی طور پر لاحق ہونے والے ایچ ایس وی 1 انفیکشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ برسوں میں کئی ممالک میں ایچ ایس وی 1 کے پھیلاؤ کے انداز میں بھی تبدیلی دیکھی گئی ہے جہاں اس کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد میں کمی اور بڑوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق، اس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر میں وائرس کے خلاف مدافعت کم ہو جاتی ہے۔
رپورٹ کے مصنف اور عالمی ادارہ صحت میں شعبہ جنسی و تولیدی صحت کے عہدیدار ڈاکٹر سامی گوٹلیب نے کہا ہے کہ جنسی تعلقات کے نتیجے میں لاحق ہونے والے ہرپیز سے وابستہ سماجی بدنامی کے سبب اس پر بہت کم بات ہوتی ہے حالانکہ یہ مرض ہر سال دنیا میں لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنسی افعال کے دوران کنڈوم کا استعمال بھی اس مرض سے بڑی حد تک تحفظ دیتا ہے۔ جن لوگوں میں اس بیماری کی فعال علامات ہوں انہیں دوسروں سے جنسی تعلق قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
'ڈبلیو ایچ او' کے اقدامات
اس عام انفیکشن کو روکنے کے لئے تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہرپیز کی نئی ویکسین اور علاج کے لیے مزید تحقیق اور اس بیماری کی روک تھام پر سرمایہ کاری اور اس ضمن میں ہر جگہ مساوی اقدامات سے لوگوں کو اس کے خلاف موثر تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' نے تجویز کیا ہے کہ جن لوگوں میں ہرپیز کی علامات ظاہر ہوں انہیں ایچ آئی وی ٹیسٹ اور پیشگی علاج کی سہولت دی جانی چاہیے۔
ادارہ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر علاج سے متعلق آگاہی بڑھانے اور ادویات تک رسائی کو بہتر کرنے کے ساتھ ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے بھی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ، ہرپیز انفیکشن کی روک تھام کے لیے نئی ویکسین اور علاج پر تحقیق کو بھی آگے بڑھایا جا رہا ہے۔