سلامتی کونسل: پرامن شام کے لیے قابل بھروسہ اور مشمولہ انتقال اقتدار اہم
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ شام میں اقتدار کی قابل بھروسہ اور مشمولہ طور سے منتقلی ضروری ہے اور عالمی برادری کو روشن مستقبل کے لیے ملک کے لوگوں کی مالی و سیاسی مدد کرنا ہو گی۔
شام میں سابق صدر بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں ملکی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ اس دوران ملک کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن اور ادارے کے اعلیٰ سطحی امدادی رابطہ کار ٹام فلیچر نے سفیروں کو تازہ ترین حالات اور مستقبل کے امکانات و خدشات پر بریفنگ دی۔
دونوں حکام ان دنوں شام کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے نئی حکومت کے رہنما احمد الشرح اور قائمقام وزیراعظم محمد البشیر و دیگر سے ملاقاتیں کی ہیں۔
جیئر پیڈرسن نے ویڈیو کال کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب شام کے تمام لوگوں کو یہ یقین دہانی کرانے کا وقت ہے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔ آنے والے دنوں میں اچھے حالات کی امیدوں کے ساتھ خدشات بھی موجود ہیں۔ اگر شام کے لوگوں اور عالمی برادری نے صورتحال کو درست طور سے نہ سنبھالا تو حالات دوبارہ بگڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے دورے میں وہ مختلف سیاسی فریقین سے رابطے میں ہیں اور لوگوں کی امیدوں اور خدشات سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اب ان کے لیے اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔
اقتدار کی منتقلی اور ضروری تقاضے
خصوصی نمائندے نے بتایا کہ اسرائیل کی کابینہ نے گولان میں آبادکاری کو وسعت دینے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اسے مقبوضہ علاقے میں بستیاں تعمیر کرنے کی تمام سرگرمیوں کو روکنا ہو گا جو کہ غیرقانونی اور شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔
شام میں لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی جبکہ ملک کی بڑی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ 14 سالہ جنگ نے ملکی معشیت اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے اور 90 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام کے لوگوں کو اقتدار کی منظم طور سے منتقلی درکار ہے جس میں ریاستی ادارے قائم رہیں اور لوگوں کے مفاد میں عمل کریں اور انہیں بنیادی خدمات فراہم کر سکیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کی مطابقت سے ملک کا نیا آئین تیار ہونا چاہیے اور ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد عمل میں آنا چاہیے جن میں تمام لوگوں کو رائے دہی کا حق ہو۔سیاسی تبدیلی کے عمل میں خواتین کو نمائندگی ملنا بھی ضروری ہے بصورت دیگر یہ عمل مشمولہ نہیں کہلائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ صیدنایا جیل کے دورے میں قیدیوں کے کمرے اور وہاں تشدد و سزائے موت دینے کا ہولناک انتظام خود دیکھ چکے ہیں۔ یہ مناظر سابق حکومت کے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی گواہی تھے۔
درستگی کا تاریخی موقع
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے سربراہ ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک شام کے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب اس غلطی کو درست کرنے اور ان لوگوں بالخصوص وہاں خواتین اور لڑکیوں کو ان کی امنگوں کی تکمیل میں مدد دینے کا وقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران شام میں واقعات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں لیکن وہاں انسانی بحران میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حالیہ واقعات کے باعث ملک میں امدادی ضروریات پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے ہیں، سیکڑوں شہری ہلاک و زخمی ہو گئے ہیں جن میں 80 بچے بھی شامل ہیں جبکہ امدادی سرگرمیوں میں خلل آیا ہے اور بیشتر اداروں نے عارضی طور پر اپنی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔
تاہم، انہوں نے بتایا کہ اب حالات قدرے معمول پر آ رہے ہیں۔ بازار، سڑکیں، ہسپتال اور سکول دوبارہ کھل رہے ہیں، امدادی کارروائیاں بھی بتدریج بحال ہونے لگی ہیں اور وہ آئندہ دنوں حلب اور ادلب کا دورہ کر کے امدادی ضروریات اور اقدامات کا اندازہ لگائیں گے۔ اس کے بعد ملک میں آئندہ تین ماہ کے لیے ہنگامی امدادی ضروریات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
تعمیرنو اور بحالی
ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں موجودہ حکومت کے رہنما اور عبوری وزیراعظم کے ساتھ ان کی ملاقاتیں حوصلہ افزا رہیں جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ نئی انتظامیہ امدادی کارکنوں کی نقل و حرکت میں ہر طرح کی سہولت دے گی۔
ٹام فلیچر نے عالمی برادری اور سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ ملک میں بین الاقوامی انسانی قانون کے احترام سے متعلق مضبوط پیغام دیں۔ ملک میں امدادی کارروائیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ملک کو کثیرالمقاصد امداد درکار ہے تاکہ تبدیل ہوتی ضروریات سے نمٹا جا سکے۔ ہنگامی اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی فنڈ نے رواں سال شام کے لیے 32 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ تعمیرنو اور بحالی، ضروری خدمات کو برقرار رکھنے اور انسانی امداد پر انحصار میں کمی لانے کے لیے مزید مدد فراہم کریں۔
انہوں نے عالمی برادری سے ایسے قدم اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا جن کی بدولت شام پر عائد پابندیاں اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ نہ بنیں۔
حقیقی سیاسی تبدیلی کی ضرورت
شامی فلم ساز اور انسانی حقوق کی مہم 'ایکشن فار سما' کی معاون بانی وعد الخطیب نے بھی سلامتی کونسل کو بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کو اپنی قرارداد 2254 کی مطابقت سے شام کے لوگوں کو حقیقی سیاسی تبدیلی ممکن بنانے میں مدد دینی چاہیے اور اس عمل میں شام کے تمام لوگوں اور تمام طبقات کی نمائندگی ہونا ضروری ہے۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں ملک کا نیا آئین بنانا اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے اور یہ تبدیلی انصاف قائم کیے بغیر نہیں آ سکتی۔ اس موقع پر شام کے لاکھوں پناہ گزینوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو استحکام اور اپنی زندگیوں کی تعمیرنو کے حق دار ہیں۔ انہوں نے شام پر اسرائیل کے حملوں کو بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے احتساب پر زور دیا۔
آئین، ریفرنڈم اور انتخابات
شام کے مذاکراتی کمیشن کے سربراہ بدر جاموس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ملکی حزب اختلاف نے پرامن سیاسی تبدیلی کے لیے ہرممکن کوشش کی اور ہر طرح سے لچک دکھائی لیکن سابق حکومت نے ایسی تمام کوششوں کو مسترد کیا جس کی بھاری قیمت شام کے لوگوں نے اپنے خون اور زندگیوں کی صورت میں چکائی۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن شام کو ایسا ملک بنانا چاہتا ہے جہاں سبھی کے مساوی حقوق و فرائض ہوں، جو بیرونی مداخلت سے پاک ہو اور اس کے اپنے ہمسایوں اور دوستوں کے ساتھ متوازن تعلقات ہوں۔ اب ملک پر عائد پابندیاں اٹھائی جانی چاہیں اور انسانی امداد میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ لوگ اپنے ملک کی تعمیرنو کر سکیں۔
انہوں نے ایک جامع عبوری قومی حکومت کے قیام پر زور دیا جس میں شام کے تمام لوگوں بشمول انقلابیوں، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی، نوجوانوں اور خواتین کی نمائندگی ہو۔ علاوہ ازیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عبوری حکومت ملک میں جامع قومی کانفرنس بلائے جو دستور اسمبلی کا انتخاب کرے۔ یہ اسمبلی ملک کے لیے ایسا آئین تیار کرے جو شامی مردو خواتین کی امنگوں کا آئینہ دار ہو۔ بعدازاں اس آئین پر ریفرنڈم کروایا جائے اور پھر اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کے منحرفین سمیت نوکریوں اور عہدوں سے ناجائز طور پر برطرف کیے جانے والے لوگوں کو واپس بلایا جائے اور ان کے واجبات ادا کیے جائیں۔ انہوں ںے پناہ گزینوں اور اپنے گھروں کو واپس آنے والے لوگوں کی مدد کے لیے فنڈ قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔