غزہ: لوگوں کا قبل از وقت بھوک سے جان کی بازی ہارنے کا بڑھتا امکان
غزہ اس وقت دنیا میں خطرناک ترین علاقہ بن گیا ہے جہاں خوراک، پناہ اور تحفظ جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو موت، بھوک اور تکالیف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
علاقے میں اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر (اوچا) کے سربراہ جارجیس پیٹروپولس نے بتایا ہے کہ بچوں، ماؤں، امدادی کارکنوں اور اساتذہ سمیت سبھی کو خوراک کی قلت، بمباری اور انسانی امداد تک عدم رسائی کے باعث موت کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ 14 ماہ سے جاری جنگ میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ان لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہے لیکن اسے اپنا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
انسانی امداد کی عدم رسائی
غزہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ 'اوچا' لوگوں کو خوراک، طبی مدد اور پینےکا صاف پانی فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایندھن کی قلت اور راستے بند ہونے کے باعث یہ بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
جب ان مسائل کو اسرائیلی حکام کے سامنے رکھا جائے اور انہیں امدادی کارروائیوں کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی جائے تو اسے یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے اور امداد کی رسائی روکنے کے ہتھکنڈوں سے جنگی ہتھیار کا کام لیا جا رہا ہے۔
عام طور پر کسی جگہ امداد کی فراہمی کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے اور امدادی سامان کی کمی کے باعث لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ امدادی کارکنوں کو ہولناک فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ انہیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا لوگوں کو بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے یا سردی سے؟ کیا ان کے لیے خوراک لانی چاہیے یا سردی اور بارش سے بچاؤ کے لیے پلاسٹک کی چادریں مہیا کی جانی چاہئیں؟
وسیع تباہی اور نقل مکانی
انہوں نے بتایا کہ شمالی غزہ 75 روز سے محاصرے میں ہے جہاں عسکری کارروائیوں میں مزید شدت آ گئی ہے۔ علاقے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں، پوری کی پوری آبادیاں تباہ ہو گئی ہیں اور لوگوں کو برستے بموں میں نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔
غزہ کے وسط میں اسرائیل کی قائم کردہ راہداری پر اس قدر عسکری رکاوٹیں ہیں کہ وہاں سے گزرنا ممکن ہی نہیں۔ اکتوبر سے اب تک امدادی کارروائیوں کی 150 درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ اگر امدادی سامان پناہ گاہوں یا ہسپتالوں میں پہنچ بھی جائے تو عموماً یہ حملوں میں تباہ ہو جاتا ہے۔
عالمی برادری سے مطالبہ
بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی نظام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے جہاں امدادی سامان کے نہایت محدود ذخائر باقی رہ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے علاقے میں بڑھتی ہوئی انسانی تباہی کے بارے میں تواتر سے خبردار کیا ہے اور سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش تمام فریقین پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں کا احترام کریں اور ضرورت مند لوگوں کو امداد کی فراہمی میں سہولت دیں۔
پیٹروپولس نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور شہریوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ غزہ میں جنگ بندی اور مکمل امدادی رسائی کی ضرورت ہے۔