غزہ قبرستان بن چکا جس سے دنیا نے نظریں پھیر لی ہیں، امدادی ادارے
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ غزہ اب قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں موت سے فرار کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی جبکہ دنیا نے اس صورتحال پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
موسم سرما کی شدید بارشوں کے باعث غزہ کے سنگین حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔ مسلسل بمباری اور حملوں سے لوگوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے اور 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کو کہیں بھی پناہ میسر نہیں ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی سینئر ایمرجنسی آفیسر لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے مناسب مقدار میں خوراک اور بنیادی ضرورت کی اشیا دستیاب نہیں ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہر راستہ موت کی جانب جاتا ہے۔
بچوں کے لیے تباہ کن حالات
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے اسی انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 96 فیصد خواتین اور بچوں کو بنیادی ضرورت کی غذائیت میسر نہیں ہے۔
ادارے کی افسر اطلاعات روزالیا بولین نے کہا ہےکہ شمالی غزہ 75 روز سے زیرمحاصرہ ہے ان حالات میں بچوں کے لیے تقریباً 10 ہفتوں سے انسانی امداد نہیں پہنچ پائی۔
اس صورتحال میں بچے جسمانی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ انہیں سردی اور بارش میں گرم کپڑوں کی کمی کا سامنا ہے۔ بہت سے بچے اب بھی موسم گرما کے لباس میں دکھائی دیتے ہیں۔ علاقے میں کھانا بنانے کے لیے گیس نہ ہونے کے باعث بڑی تعداد میں بچے جلانے کے لیے کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔
آج بھی غزہ میں مزید شدید بارشیں متوقع ہیں۔ اسرائیل کی بمباری کے باعث کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کو کڑے موسمی حالات سے نمٹنے کا سامان میسر نہیں اور انہیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ بیشتر لوگ کپڑے سے بنے خیموں میں قیام پذیر ہیں جن کے پاس بارش سے بچاؤ کا انتظام نہیں ہے جبکہ علاقے میں 69 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں یا انہیں سخت نقصان پہنچا ہے۔
امداد پہنچانے پر پابندی
ان کا کہنا ہے کہ امدادی سرگرمیوں پر اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ بہت سی اور مسلسل رکاوٹوں کے باعث امدادی اداروں کو یہ کڑا فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آیا وہ لوگوں کو خوراک مہیا کریں یا پناہ کا سامان فراہم کریں۔ لوگ بھوکے اور مایوس ہیں جس کی وجہ سے کھانا تقسیم کرنے کے مواقع پر انہیں بھگدڑ اور کچلے جانے کا خدشہ رہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما وہ واحد یقینی چیز ہے جس کے لیے اقوام متحدہ نے امدادی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم ابھی تک پناہ کا حسب ضرورت سامان غزہ میں نہیں لایا جا سکا کیونکہ امدادی ادارے غذائی امداد کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔ حالات اس قدر مخدوش ہیں کہ خواتین روٹی نہ ملنے سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔
ایک روز قبل امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا تھا کہ اسرائیل کے حکام نے شمالی غزہ میں خوراک اور پانی پہنچانے کی ایک اور درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ نتیجتاً بیت حنون، بیت لاہیہ ار جبالی میں لوگ زندہ رہنے کے لیے درکار ضروری مدد سے بدستور محروم ہیں۔