عالمی عدالت انصاف کو مقدمات کی غیر معمولی تعداد کا سامنا
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے پاس اس وقت بہت بڑی تعداد میں مقدمات ہیں اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں اس کا کام پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔
عدالت کے رجسٹرار فلپ گوٹیئر کا کہنا ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی حالیہ تقسیم عدالت سے سیاسی میدان میں کسی فریق کی طرفداری کیے بغیر اپنا خودمختارانہ اور غیرجانبدارانہ کردار برقرار رکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں یو این نیوز کی جولیا فوکسن کو انٹرویو دیتےہوئے کہی جہاں وہ آج سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کے لیے آئے ہیں۔
اس انٹرویو میں انہوں نے واضح کیا کہ 'آئی سی جے' سیاسی ادارہ نہیں بلکہ عدالت ہے جو ممالک کے مابین تنازعات کو ختم کرانے کے بجائے صرف ان کا تصفیہ کرا سکتی ہے۔
فلپ گوٹیئر نے کہا کہ عدالت کے پاس بڑی تعداد میں مقدمات کی آمد سے دنیا بھر میں بڑھتے تنازعات کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم جب بھی کوئی ملک اپنا تنازع لے کر عدالت میں آتا ہے تو یہ کثیرفریقی طریق کار کی عملی مثال پیش کرتی اور ایسے نظام کی نمائندگی کرتی ہے جو مسائل کو حل کر رہا ہے۔
اختصار اور وضاحت کے لیے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔
یو این نیوز: کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ عدالت میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کتنے اور کون سے مقدمات زیرسماعت ہیں؟
فلپ گوٹیئر: اس وقت عدالت کے پاس 23 مقدمات ہیں جو کہ غیرمعمولی تعداد ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ کی بات ہو تو ان کی تعداد آٹھ ہے۔ دو مقدمات کا تعلق غزہ سے ہے جن میں نسل کشی کے خلاف کنونشن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ان میں ایک مقدمہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل اور دوسرا نکارا گوا نے جرمنی کے خلاف دائر کر رکھا ہے۔ نکارا گوا کا دعویٰ ہے کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر کے نسل کشی کے خلاف کنونشن اور انسانی قانون کو تحفظ دینے کے دیگر معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیے جانےکے معاملے پر فلسطین اور امریکہ کے مابین مقدمہ بھی زیرسماعت ہے جو کہ سفارتی قانون سے متعلق ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو عدالت کے پاس مقدمات کی بھرمار ہے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں بظاہر یہ مقدمات صرف اسی خطے سے متعلق ہیں لیکن ان میں بہت سے دیگر ممالک بھی آتے ہیں۔ یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ نسل کشی کے کنونشن جیسے معاہدوں کا ہر فریق یہ یقینی بنانے کا سوچ سکتا ہے کہ ان معاہدوں پر عملدرآمد ہو۔
یو این نیوز: کیا آپ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات کے قانونی نتائج سے متعلق جولائی میں عدالت کی جانب سے دی گئی مشاورتی رائے کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
فلپ گوٹیئر: اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے طویل قبضے، اس کی پالیسیوں اور اقدامات سے فلسطینیوں کی اپنے حق خود ارادیت سے محرومی اس قبضے کی قانونی حیثیت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیرقانونی ہے۔
مشاورتی رائے میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنا قبضہ ختم کرے، فلسطینی علاقوں پر نئی بستیوں کی تعمیر کو فوری طور پر روکے اور اس کے اقدامات سے فلسطینیوں کو جو نقصان ہوا ہے اس کا مکمل ازالہ کرے۔
یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ مشاورتی رائے کا مقصد قانون کے بارے میں وضاحت مہیا کرنا اور ان لوگوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے جنہوں نے اس کے لیے درخواست دی ہے۔
یو این نیوز: ایسی مشاورتی رائے اور جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عدالت میں دائر کیے جانے والے مقدمے میں بنیادی فرق کیا ہے؟
فلپ گوٹیئر: اس میں بہت بڑا فرق ہے۔ مشاورتی رائے کسی ایک ملک کی جانب سے طلب نہیں کی جاتی بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اکثریتی ووٹ کے ذریعے عدالت سے یہ رائے لیتی ہے۔
اسمبلی کی جانب سے درخواست موصول ہونے پر عدالت زیرغور قانونی سوال پر اپنی رائے فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ عدالت کی رائے قانونی اعتبار سے مستند ہوتی ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ممالک اس پر عملدرآمد کے پابند نہیں ہوتے۔
دوسرا معاملہ دو ممالک کے مابین تنازع سے متعلق ہے۔ اس میں کوئی ایک یا دو ملک اپنے تنازع کو تصفیے کے لیے عدالت میں لاتے ہیں اور فریقین عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے اور اس پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں۔
تاہم بہترین اصول یہ ہے کہ فریقین اپنے تنازع کا عدالت سے تصفیہ کرانے پر رضامند ہوں جو کہ مشکل ہوتا ہے۔
یو این نیوز: غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے رواں سال عدالت اور اس کے اختیارات پر بہت سی بات ہوتی رہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
فلپ گوٹیئر: میں یہ کہوں گا کہ عدالت کو خودمختارانہ اور غیرجانبدارانہ انداز میں کام کرنا ہوتا ہے۔ اس کا خود کو ایسے مسائل سے بلند رکھنا بہت ضروری ہے جو بڑی تعداد میں لوگوں میں تقسیم پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی میدان میں کسی فریق کی طرفداری کیے بغیر قانونی فیصلے کرے۔ یہ تنازعات پر ایسے فیصلے دے سکتی ہے جنہیں فریقین کو تسلیم کرنا ہوتا ہے اور عام طور پر وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ عدالت کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے، نہ ہی یہ تنازعات پر نظر رکھتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس انہیں ختم کرانے کے ذرائع ہوتے ہیں۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے وگرنہ اس سے بہت سے توقعات وابستہ ہو سکتی ہیں۔
یو این نیوز: آپ نے گزشتہ سال یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے پاس مقدمات کی بڑھتی تعداد سے کثیرفریقی طریقہ کار کی کامیابی کی عکاسی ہوتی ہے۔ کیا آپ اب بھی اس بات پر قائم ہیں؟
فلپ گوٹیئر: یقیناً، بصورت دیگر میں آج یہاں نہ ہوتا۔ جب بھی ممالک کوئی تنازع عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ایک کامیابی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کثیرفریقی بین الاقوامی نظام سے وابستہ امیدیں برقرار ہیں اور یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک عدالت میں پانچ نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں جبکہ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ مقدمات پر آرا دی جا رہی ہیں، فیصلے آ رہے ہیں اور نئے مقدمات دائر ہو رہے ہیں۔
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ بہت سے مقدمات دو فریقین کی جانب سے آئے ہیں کیونکہ وہ اپنے جھگڑوں کو چکانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گیبون اور استوائی گنی اپنی سرحدی حدود کے بارے میں مقدمہ عدالت میں لائے جس پر عدالت نے دو تصفیے کرائے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور مثال رواں مہینے دیکھنے کو ملی جب جزائر چاگوس کی ملکیت پر ماریشس اور برطانیہ کے مابین تصفیہ طے پایا۔ اس معاملے میں عدالت نے 2019 میں اپنی مشاورتی رائے دی تھی اور پانچ سال کے بعد ان جزائر پر ملکیت کے مسئلے کا فیصلہ ہو گیا۔
ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظام کام کر رہا ہے اور عدالت کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ نظام کے ایک حصے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ رکن ممالک کو عدالت سے اپنے تنازعات طے کرانے پر قائل کرنے میں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں اور سیکرٹری جنرل کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
یو این نیوز: کیا آپ کو 'آئی سی جے' کے کردار کے حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط اور گمراہ کن اطلاعات پر کوئی پریشانی بھی ہے؟
فلپ گوٹیئر: یقیناً اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب آپ یہ دیکھتےہیں کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا کچھ ہو سکتا ہے تو ہمارے لیے آگاہ رہنا اور اس معاملے میں ضروری قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے لیکن یہ مسئلہ لوگوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہی عدالت کا مقصد ہے اور ہم اس معاملے میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی انصاف ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ کسی فیصلے کو محض ایک ٹویٹ میں سمویا نہیں جا سکتا۔ یہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے اور لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے ذرائع موجود ہیں لیکن اس کا کوئی عالمگیر حل نہیں ہے۔ لوگوں کو معاملات سیاہ و سفید میں دیکھنے کے بجائے پیچیدہ اطلاعات سے آگاہی پانے کے لیے عدالت کے فیصلوں کو پڑھنے اور درست و غلط کے مابین باریک فرق کو جاننے کی ضرورت ہے۔