انٹرویو: غزہ کی ہولناک صورتحال میں قحط پھیلنے کا خطرہ، جوناتھن ڈومونٹ
غزہ کی پٹی میں ہولناک درجے کی تباہی پھیلی ہے جہاں شہریوں کو بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ علاقے میں بڑے پیمانے پر قحط پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) میں ہنگامی رابطوں کے شعبے کے سربراہ جوناتھن ڈومونٹ نے یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ غزہ میں بہت سے لوگ کئی مرتبہ بے گھر ہوئے ہیں جو خیموں میں مقیم ہیں یا انہوں نے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان لوگوں کو نہ تو بجلی میسر ہے اور نہ ہی انہیں صاف پانی تک رسائی ہے۔
اختصار اور وضاحت کے مقصد سے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔
یو این نیوز: غزہ میں جاری جنگ کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اب وہاں کے حالات کیسے ہیں؟
جوناتھن ڈومونٹ: وہاں واقعتاً ہولناک تباہی پھیلی ہے۔ امسال مجھے گوما، پورٹ او پرنس اور خرطوم جیسی جگہوں پر جانے کا موقع بھی ملا جہاں لوگوں کو خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے یا وہ بے گھر ہیں۔ لیکن میں نے غزہ میں ایسا کوئی فرد نہیں دیکھا جو وہاں عسکری کارروائیوں کے باعث کم از کم دو یا تین مرتبہ بے گھر نہ ہوا ہو۔
وہاں تقریباً ہر فرد اپنے گھر سے محروم ہو چکا ہے۔ جنوبی علاقے میں لوگوں کی بڑی تعداد خیموں میں مقیم ہے جنہیں سردی، بارشوں، تیز ہواؤں اور سیلاب کا سامنا ہے۔ وہاں رہنے والے بیشتر بچوں کے پاؤں میں جوتے تک نہیں ہیں۔
غزہ میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے گھروں کو واپس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جبکہ یہ گھر اب ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ میں وہاں چند ایسے خاندانوں سے بھی ملا جن کا ٹھکانہ سیمنٹ کے چند تباہ شدہ بلاک تھے جبکہ ان کے پاس نہ تو پانی تھا اور نہ ہی انہیں بجلی میسر تھی۔ یہ ایسے بہت سے بے گھر لوگوں کے لیے دوسرا موسم سرما ہے۔
یو این نیوز: آپ غزہ کے شمالی علاقے میں بھی گئے ہیں۔ کیا آپ ہمیں وہاں کے حالات سے متعلق کچھ مزید بتا سکتے ہیں؟
جوناتھن ڈومونٹ: اگرچہ مجھے شمال میں زیادہ دور جانے کا موقع نہیں ملا تاہم میں نے غزہ شہر کا دورہ ضرور کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا شہر ہے لیکن وہاں بڑی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ پہلے وہاں بنگلے، ساحلی کیبن اور ماہی گیری کی بندرگاہ تھی لیکن اب وہ بھوت نگر کا منظر پیش کرتا ہے۔
'ڈبلیو ایف پی' کو اس علاقے تک رسائی حاصل ہے اور اسی لیے وہاں کسی قدر غذائی مدد پہنچ رہی ہے۔ تاہم عالمی برادری یا اقوام متحدہ کی جانب سے مہیا کی گئی خوراک کے علاوہ کھانے پینے کی دیگر اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہاں مرچیں 195 ڈالر میں مل رہی تھیں۔ ایک مرچ کی قیمت پانچ ڈالر تھی۔ لوگ اس قدر مہنگی خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
تنور کسی بینک کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں روٹی حاصل کرنے کے لیے قطار بنانے کی غرض سے دھاتی جنگلے لگائے گئے ہیں تاکہ بھوک کے ستائے لوگ خوراک کے لیے چھینا جھپٹی میں زخمی نہ ہونے پائیں۔
خان یونس میں تیار کھانے کی تقسیم کے موقع پر ہم نے لوگوں کو انتہائی بے بس اور مایوس دیکھا۔ یہ کیفیت ان کے چہروں اور آنکھوں سے عیاں تھی۔
انگریزی میں مکمل انٹرویو یہاں سنیے:
یو این نیوز: 'آئی پی سی' رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ میں شدید بھوک پھیل رہی ہے اور ممکنہ طور پر بعض لوگ قحط کے دھانے پر ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے؟
جوناتھن ڈومونٹ: مسئلہ یہ ہے کہ غزہ میں نظم و نسق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وہاں نہ تو کوئی پولیس ہے اور نہ کوئی انتظامی و سماجی ڈھانچہ وجود رکھتا ہے۔ نتیجتاً جنوبی غزہ میں جتھے وجود میں آ رہے ہیں جنہوں نے امدادی ٹرکوں کو لوٹا اور ان کے ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
ہم خوراک کی متواتر ترسیل یقینی بنانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اگر جنگ بندی ہو جائے تو یہ کام آسان ہو جائے گا اور ہمیں ہمیشہ امید رہی ہے کہ جنگ ختم ہو جائے گی۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک ہمیں غزہ سے باہر موجود تمام امدادی خوراک کو علاقے میں لانا ہو گا تاکہ اسے لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو خوراک تک رسائی ہو۔
یو این نیوز: غزہ میں بہت سے تنور بند ہو گئے ہیں۔ اس وقت کتنے تنور پوری طرح فعال ہیں؟
جوناتھن ڈومونٹ: جنوبی علاقے میں 'ڈبلیو ایف پی' کا کوئی بڑا تنور نہیں ہے۔ شمال میں ادارے کے چند بڑے تنور ضرور ہیں، لیکن جنوب میں صرف چھوٹے تنور ہیں اور جب لوگوں کو آٹا میسر آتا ہے تو وہ ان سے حسب ضرورت کام لیتے ہیں۔ علاقے میں روٹی ہی بنیادی خوراک ہے اور یہی لوگوں کے لیے زندہ رہنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔