انٹرویو: غزہ میں ’نسل کشی‘ روکنے کے لیے اسرائیل پر پابندیاں لگانا ضروری، البانیز
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیز نے کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے رکن ممالک کو اسرائیل کے ساتھ معاشی، سیاسی اور عسکری تعلقات ختم کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ کرنے کے لیے اس پر پابندیاں عائد کرنا ضروری ہے۔ تاہم، فی الوقت عالمی برادری منقسم ہے اور مغربی ممالک غزہ میں ہوتی نسل کشی کو دیکھ نہیں پا رہے جس سے مسئلے کے طویل مدتی حل اور بین الاقوامی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔
یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہی اب اسرائیل کے زیرقبضہ مغربی علاقے میں بھی دیکھے جا رہے ہیں جہاں ایک سال کے عرصہ میں 700 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ان میں 169 بچے بھی شامل ہیں جبکہ 9,000 فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں ناجائز قید کاٹ رہے ہیں۔
فرانچسکا البانیز نے بتایا کہ رواں سال مارچ میں انہوں نے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اس معاملے پر نئی معلومات جمع کی ہیں جو اس رپورٹ کا حصہ ہیں جسے انہوں نے حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا ہے۔
خصوصی اطلاع کار نے کہا کہ مارچ میں انہوں نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو پانچ ماہ کے دوران غزہ میں اسرائیلی فوج کے طرزعمل کے تجزیے پر مبنی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے اسرائیل کی سیاسی قیادت کے فیصلوں اور نسل کشی کے حق میں اٹھنے والی سماجی یا مذہبی آوازوں کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خاص طور پر غزہ میں فلسطینیوں کا بہت بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی فوج نے غزہ میں زندگی کے امکان کو ختم کرنے اور لوگوں کو جسمانی و ذہنی ایذا پہنچانے کے طریقے اپنائے۔ رپورٹ میں ایسے اقدامات کا تجزیہ کیا گیا جو غزہ میں نسل کشی کا واضح ثبوت تھے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں ہونے والی تباہی اور تشدد کے پیچھے اسرائیلی سیاسی قیادت کی جانب سے بھرپور ترغیب بھی موجود تھی۔
اس جنگ میں غزہ اور وہاں زندگی کرنے کے ہر امکان کو تباہ کر دیا گیا ہے کیونکہ وہاں خوراک دستیاب نہیں ہے، ہسپتال اور سکول کام نہیں کر رہے۔ علاقے میں لوگوں کو جس طرح جسمانی و ذہنی نقصان پہنچایا گیا ہے وہ اب دیگر مقبوضہ علاقوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے علاوہ سڑکوں، کاروباروں، پانی و بجلی کے نظام اور ہسپتالوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی قید میں ہزاروں فلسطینی تشدد جھیل رہے ہیں۔ یہ ہولناک صورتحال ہے اور جو کچھ غزہ میں کیا گیا وہ مغربی کنارے میں بھی دکھائی دینے لگا ہے۔
یو این نیوز: اسرائیل کے حکام 7 اکتوبر 2023 کے بعد اپنے دفاع اور سلامتی کے جائز حق کی بات کر کے غزہ پر حملے کا جواز پیش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے نکتہ نظر سے کیا آپ واضح کر سکتی ہیں کہ حقوق کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہوتے ہیں؟
فرانچسکا البانیز: جی، اپنے دفاع کے حق کی یہ بات موجودہ صورتحال میں غیرمتعلق ہے۔ اسرائیل کو اپنے علاقے میں اور اپنے لوگوں کے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسے مقبوضہ آبادی پر جنگ مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں جو 1967 سے اس کے قبضے کا سامنا کر رہی ہے۔ گزشتہ جولائی میں عالمی عدالت انصاف نے بھی اس قبضے کو غیرقانونی قرار دے کر اسے جلد از جلد ختم کرنے کو کہا تھا۔ جنرل اسمبلی نے واضح کیا ہے کہ یہ قبضہ ایک سال کے اندر ختم ہو جانا چاہیے۔ ستمبر 2025 تک اسرائیل کو مقبوضہ علاقے سے اپنی تمام فوج واپس بلانا ہو گی۔ اسے ان جگہوں پر قائم کی جانے والی اپنی بستیوں کو ختم کرنا ہو گا اور فلسطینیوں کے ملکیتی قدرتی وسائل کا استحصال روکنا ہو گا۔
عدالت نے دو مرتبہ کہا ہے کہ اس معاملے میں اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کی دلیل بلا جواز ہے کیونکہ یہ فلسطینیوں کے خود اختیاری کا معاملہ ہے جس کا دفاع مزاحمت سے ہی ہو سکتا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کا حق موجود ہے جو ممالک کی جانب سے اپنے دفاع کے حق سے مماثل ہے۔ اگرچہ مزاحمت کے حق پر بھی کئی طرح کی قدغن ہیں تاہم ذرا فرض کیجیے اور سوچیے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے (اگرچہ فی الوقت یہ صورتحال نہیں ہے) تو جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ اس میں تمام شہریوں کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ 17 ہزار بچوں سمیت 42 ہزار شہریوں کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ ہم نہیں جانتے کہ آیا وہ تمام عام شہری تھے یا نہیں لیکن اسرائیل کو بھی یہ علم نہیں ہے۔ اسرائیل دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ جن شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے وہ بھی دہشت گرد ہیں کیونکہ غزہ کے تمام لوگ حماس کے حامی ہونے کے ناطے جنگ کا جائز ہدف ہیں۔ جنگ کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا۔ یہ نسل کشی کو جواز دینے کا بہانہ ہے۔
یو این نیوز: آپ نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ یہ قتل عام 7 اکتوبر سے شروع نہیں ہوا تھا اور یہ سب کچھ بے سبب نہیں بلکہ بالارادہ ہو رہا ہے۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس کے پیچھے کون سا ارادہ ہے؟
فرانچسکا البانیز: نہیں، میں نے کہا کہ نسل کشی اس وقت شروع ہوتی ہے جب اسرائیل کی فوج اور وزرا غزہ کی آبادی کو تباہ کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن میں یہ بھی کہتی ہوں، جیسا کہ لیمکن نے کہا کہ نسل کشی کوئی اقدام نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے فلسطین کے باقیماندہ حصے کو فتح کرنے کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کا موقع دیکھا لیکن فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا سلسلہ بہت سال پہلے سے جاری تھا۔ لہٰذا، 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا اس نے اسرائیل کو نسل کشی کا موقع فراہم کر دیا۔
یو این نیوز: لیکن، آپ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس کے پیچھے ایک مقصد ہے اور وہ مقصد عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے۔
فرانچسکا البانیز: جی ہاں، یہ ایک طویل مدتی مقصد ہے اور اسرائیل بہت پہلے سے یہی سوچتا آیا ہے۔ اسرائیل روزانہ ایک کے بعد ایک گھر کو منہدم کر کے اور فلسطینیوں کی زمین پر بتدریج قبضہ کر کے اسی مقصد کے حصول کی جانب بڑھ رہا تھا۔ 7 اکتوبر کے بعد اسے تمام فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا موقع مل گیا۔
یو این نیوز: اقوام متحدہ اور عالمی برادری یہ سلسلہ روکنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
فرانچسکا البانیز: میں سمجھتی ہوں کہ گزشتہ دہائیوں میں عالمی برادری اور خاص طور پر جنرل اسمبلی اس معاملے میں اس قدر منقسم نہیں تھے جتنا کہ یہ آج دکھائی دیتے ہیں۔ ممالک کے مابین بہت سے نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس اور خوف محسوس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک فلسطینیوں اور غزہ کی صورتحال کو نہیں دیکھ رہے اور وہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جس پر انہیں یقین ہے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی نہیں کر سکتا اور وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے۔
اس سے فلسطینی مسئلے کے حل کو نقصان ہو رہا ہے۔ عالمی برادری منقسم ہے اور اس تنازع کو حل کرنے اور اس مقصد کے لیے بین الاقوامی قانون کے اس کی روح کے مطابق اطلاق کا سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتی۔ اگر قانون پر عمل کیا جائے تو اسرائیل پر معاشی، سیاسی، سفارتی اور عسکری پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔ عالمی برادری کو ایسی ریاست کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو ختم کرنا ہو گا جو ناصرف غیرقانونی، بلاجواز اور غیراخلاقی قبضے میں ملوث ہے بلکہ فلسطینیوں کا قتل عام بھی کر رہی ہے۔ اس نے رواں سال اقوام متحدہ کے مراکز پر بموں سے حملے کیے ہیں اور اس کے حکام، سیکرٹری جنرل، امن کاروں، سکولوں، ہسپتالوں اور پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں۔
یو این نیوز: آپ نے اور انسانی حقوق پر 30 خصوصی اطلاع کاروں اور دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر کہا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو غزہ میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ کیا آپ وضاحت کر سکتی ہیں کہ اس سے غزہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کیسے متاثر ہو گی؟
فرانچسکا البانیز: میری رائے میں یہ پہلی عالمی جنگ کے بعد جیسی صورتحال ہو گی۔ قوی امکان ہے کہ ہمارا 75 سالہ عالمی نظام ختم ہو رہا ہے اور یہ تمام جانب سے خود پر ہونے والے حملوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کے پاس بین الاقوامی قانون کے اطلاق کی صلاحیت نہیں رہی۔ یہ لوگوں کو انسانی امداد کی یقینی فراہمی کی ضمانت نہیں دے سکتا، اس کے ذریعے طاقت کے حد سے زیادہ استعمال کو روکا نہیں جا سکتا۔ عالمی برادری گویا معذور اور غیرموثر ہو چکی ہے۔ اسی لیے عالمی نظام بھی غیرمتعلق ہوتا جا رہا ہے اور جنوبی دنیا کو اس دہرے معیار والے نظام پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔
یو این نیوز: آپ ذاتی طور پر اس بارے میں کیا محسوس کر رہی ہیں؟ مجھے علم ہے کہ آپ کو سوشل میڈیا پر حملوں کا سامنا ہے، آپ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آپ اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہیں اور ذاتی طور پر کیا محسوس کرتی ہیں؟
فرانچسکا البانیز: جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ نسل کشی ہے۔ یہ بہت خوفناک ہے۔ آپ بچوں اور ان کے ماں باپ کی ہلاکتوں سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جن کے لیے ہمدردی نہیں رہی، جو اندر سے مر چکے ہیں، جن سے اس لیے دوسروں جیسا سلوک نہیں ہوتا کہ وہ فلسطینی ہیں۔ یہ خوفناک چیز ہے۔ یہ میرے لیے بے حد پریشان کن ہے۔ جہاں تک باقی چیزوں کا تعلق ہے تو یہ بیزار کن اور مضحکہ خیز ہیں کہ اب سفیر بھی اسی پاگل پن کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ اس کا تعلق فرانچسکا البانیز سے نہیں بلکہ اس اخلاقی دیوالیہ پن سے ہے جو انسانی حقوق کے محافظوں پر حملوں کے لیے اکساتا ہے۔
نوٹ: غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔