انٹرویو: غزہ میں ہمیں سفارتکاری کی ناکامی کا سامنا ہے، ٹور وینزلینڈ
مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار ٹور وینزلینڈ نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ایسی صورتحال درپیش ہے جہاں سفارتی کوششیں ناکام ہیں اور اقوام متحدہ کو قیام امن کے کام میں کڑی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن قائم کرنے اور تنازع کا دو ریاستی حل نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی مساعی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
ناروے سے تعلق رکھنے والے ٹور وینزلینڈ نے یہ بات یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے۔ وہ دہائیوں تک مشرق وسطیٰ میں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور اب عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔
وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر 1995 میں طے پانے والے دوسرے اوسلو معاہدے کے موقع پر ناروے کی وزارت خارجہ کے مشیر تھے۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے اپنے ملک کے نمائندے کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے کے علاوہ مصر اور لیبیا کے لیے سفیر کے طور پر بھی کام کیا۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ 15 سے 20 سال تک یہ کام کرتے ہوئے وہ اپنے خاندان کو وقت نہیں دے پائے اور سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ انہیں اس ذمہ داری کو خیرباد کہنا ہو گا۔
ٹور وینزلینڈ غزہ میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور لوگوں انسانی امداد پہنچانے کی بات کرتے آئے ہیں۔ ان کی رائے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن کا قیام اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مطابقت سے مسئلے کا دو ریاستی حل اب بھی ممکن ہے حالانکہ اس امکان کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی متواتر ہو رہی ہیں۔
انٹرویو میں انہوں نے غزہ کی جنگ کے خاتمے کی امید کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ تنازعات میں ایک مرحلے پر فریقین یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انہیں موجودہ صورتحال سے کیسے نکلنا ہے اور اب غزہ کے معاملے میں بھی وہی وقت آ پہنچا ہے۔
اختصار اور وضاحت کے مقصد سے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔
ٹور وینزلینڈ: میں دوسرے اوسلو معاہدے کے وقت سے مشرق وسطیٰ کے امور پر کام کر رہا ہوں۔ اس دوران ہم نے بہت سی مشکلات اور برا وقت دیکھا ہے لیکن موجودہ حالات اچانک پیدا ہوئے جنہوں نے سبھی کو چونکا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تیزی سے بڑھتے مسلح تنازع کا سامنا ہوا۔ چنانچہ ہر ایک کو حالات سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور متحارب فریقین، علاقائی کرداروں اور خود اقوام متحدہ سمیت کوئی واضح طور پر نہیں جانتا تھا کہ ان پر کیسے قابو پانا ہو گا۔
گویا یہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں اقوام متحدہ کے لیے اب تک کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ ہمیں اپنے صلاحیت کو درست کرنے اور یہ دیکھنے کی ضرورت تھی کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔
تاہم گزشتہ 14 ماہ کے دوران اس جنگ کو روکنے کے لیے جو کچھ کیا گیا اس میں مکمل ناکامی ہوئی اور اب ہمیں ایسے حالات درپیش ہیں جن میں ارضی سیاسی صورتحال اس قدر مشکل ہوتی ہے کہ وہاں سفارت کاری کام نہیں کرتی۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی سے بھی واضح ہے اور اس نے اقوام متحدہ اور اس کے کام کی صلاحیت میں بھی بہت بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
یو این نیوز: ان حالات میں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ امن عمل اور مسئلے کا دو ریاستی حل اب بھی ممکن ہے؟ اور کیا یہ اب بھی آپ کی گفت و شنید اور بات چیت کی بنیاد ہے؟
ٹور وینزلینڈ: یقیناً۔ اپنے کام کے حوالے سے میرے وسیع روابط ہیں اور ان لوگوں کے سوا سبھی اس کے حامی ہیں جو اس امکان کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔ میرے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب وہ پیمانے ختم ہونے لگے ہیں جنہیں لے کر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ساتھ ہم 1967 اور 1973 سے کام کر رہے تھے۔ اب اس ڈھانچے کو ہی منہدم کیا جا رہا ہے جس پر فلسطینی ریاست کی بنیاد ڈالی جانا تھی اور یہ اس قدر تیزرفتار سے ہو رہا ہے جو میں نے پہلے نہیں دیکھی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر دو ریاستی حل کو نقصان پہنچانے کی خواہاں قوتیں کامیاب ہوتی ہیں تو یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو گا اور یہ بحیثیت مجموعی اقوام متحدہ کے لیے بھی انتہائی مشکل صورتحال ہو گی۔
لیکن ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ اس سے فلسطینیوں کی عالمی برادری کے تعاون سے اپنی ریاست چلانے کی صلاحیت بھی کمزور پڑ رہی ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ غزہ کی صورتحال ڈراؤنے خواب کی سی ہے جہاں رہنے والوں کو ہولناک حالات کا سامنا ہے۔ تاہم مغربی کنارے میں بھی خوف کی فضا ہے کیونکہ وہاں رہنے والے فلسطینی بھی حالات کو خراب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
یو این نیوز: آپ کہہ رہے ہیں کہ اس صورتحال کے پیچھے بااثر قوتیں ہیں اور جو فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کے امکان کو کمزور کریں گی یا کر رہی ہیں۔ لیکن اس وقت اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس تاریک صورتحال میں بہتری کے لیے کیا کر سکتی ہے؟
ٹور وینزلینڈ: اس صورتحال میں فوری طور پر بہتری لانے کا کوئی طریقہ نہیں تاہم اس مقصد کے لیے عزم اور محرک کا ہونا ضروری ہے۔ میں نے خطے کے ممالک سے اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جن کا مفاد علاقائی استحکام سے وابستہ ہے۔ ان کےعلاوہ میں عام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے بھی ملا ہوں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان حالات میں اسرائیل کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی معیشت کمزور پڑ رہی ہے اور ملک میں جس قدر تناؤ ہے وہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ فلسطین اور اسرائیل میں پورا نظام غیرمتوازن ہو چکا ہے اور اسے دوبارہ معمول پر لانے کے لیے بہت سی کوششیں درکار ہوں گی۔
ہمیں دو چیزوں پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں ہر وقت معمول کے بین الاقوامی اصولوں اور عالمی قانون سے وابستہ رہنا ہے کیونکہ اگر ایک جگہ ایسا نہ ہوا تو پھر دوسری جگہوں پر بھی یہ کمزور پڑ جائیں گے۔
دوسری بات یہ کہ، ہمیں فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہرممکن اقدامات کرنا ہیں اور ہم بہت بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کے باوجود ایسا کر رہے ہیں۔ اس کام میں اقوام متحدہ کا عملہ اپنی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے اور بڑی تعداد میں اس کے اہلکاروں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ہمیں سیاسی طور پر آگے بڑھنے کے لیے اپنی تمام کاوشوں کو مجتمع کرنا ہو گا۔
یو این نیوز: آپ نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ موجودہ واقعات کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوں گے اور خطے پر اس کا جس انداز میں اثر ہو گا اس کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسے کون سے نتائج ہیں جن کے بارے میں آپ کو سب سے زیادہ تشویش ہے؟
ٹور وینزلینڈ: فلسطینی آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ اگر ہم انہیں امن کی راہ فراہم نہیں کریں گے تو وہاں جنگجو پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس جیسے بحران کے ناصرف ہمسایہ ممالک اور بالخصوص خطے پر وسیع اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ اثرات دوسری جگہوں تک بھی پہنچتے ہیں کیونکہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کی عکاسی یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور یقیناً پورے مشرق وسطیٰ کی سڑکوں پر بھی ہوتی ہے۔
اس طرح گویا ہم نوجوان نسل کے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیلنے میں لگے ہیں جس میں انہیں اپنے مسائل کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مایوس ہو کر دوسرے طریقوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہ نہایت خطرناک بات ہے اور اس سے سبھی کو خطرہ ہے اور یہ خطرہ اسی علاقے تک محدود نہیں ہے۔
یو این نیوز: آپ نے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فریقین اس مسئلے کا حل نہیں نکالتے تو پھر عالمی برادری کو مستقبل کا لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ دنیا میں ہونے والی نئی تبدیلیوں، نئی حکومتوں اور انتظامیہ کی آمد کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کی رائے میں ایسا کیونکر ممکن ہے؟
ٹور وینزلینڈ: دنیا ایسی ہی ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ آغاز میں ہمیں موجودہ حقائق کو دیکھنا ہے کیونکہ مناسب حقیقی سیاست کا یہی راستہ ہے۔ جیسا کہ میں نےکہا، بعض اصول ایسے ہیں جو اسرائیل۔فلسطین تنازع اور اسرائیل۔عرب تنازع میں ہماری رہنمائی کرتے رہے ہیں لیکن اب ان پر بے حد دباؤ ہے۔ عالمی برادری اس ضمن میں جس جگہ یہ کام کر سکتی ہے وہ سلامتی کونسل ہے اور اس میں لیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنا ہو گا۔
اس مسئلے پر ہر جگہ سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد ہو سکتا ہے لیکن ہمیں ان میں کی گئی باتوں کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ ہمیں سلامتی کونسل میں لیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل تشکیل دینا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے مزید وقت نہیں ہے۔
یو این نیوز: لیکن یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بااثر ممالک اس مقصد کے لیے کیسے تیار ہوں گے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سلامتی کونسل منقسم ہے اور یہ صورت ایک سال سے زیادہ عرصہ سے دیکھنے میں آ رہی ہے؟
ٹور وینزلینڈ: میں یہ کہہ رہا ہوں کہ سلامتی کونسل فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے حوالے سے منقسم نہیں ہے۔ میں جب سے یہ ذمہ داری نبھا رہا ہوں اس عرصہ میں ہونے والے 50 تا 60 اجلاسوں میں ایک مرتبہ بھی کونسل میں اس معاملے پر تقسیم دکھائی نہیں دی۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ اصول تاحال برقرار ہے۔
دنیا بھر میں ان اصولوں پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن اب یہ کمزور ہو گئے ہیں اور ہمیں حقیقت پر واضح نگاہ رکھنا ہو گی۔ آٹھ سال قبل جب کونسل نے قرارداد 2334 کی صورت میں اس معاملے پر اپنا آخری سیاسی فیصلہ لیا تو غزہ کی صورتحال بہت مختلف تھی۔
سلامتی کونسل میں غزہ کے حالات پر مناسب بات چیت کبھی نہیں ہوئی کہ اس علاقائی مسئلے، اس سے جڑے دیگر وسیع مسائل اور قبضے کے مسئلے کو حل کیا جائے اور سلامتی کونسل اس پر کبھی کوئی خاص قدم نہیں اٹھا سکی۔ ہم جن اصولوں پر قائم ہیں ان کا کونسل کی قراردادوں یا اوسلو معاہدوں کے بعد ہونے والے سمجھوتوں پر اطلاق کرنا بہت مشکل نہیں۔
ان کا دوبارہ اطلاق ہونا چاہیے اور اگر ہم فلسطینی ریاست چاہتے ہیں تو فلسطینی حکمرانی کے ڈھانچے پر بات ہونا بھی ضروری ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس حوالے سے اتفاق پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے پاس جو کچھ ہے ہمیں اسی کو لے کر آگے بڑھنا ہے اور یہ وہ عام فہمی ہے کہ ہمیں نے ان اصولوں کا اطلاق کیسے کرنا ہے۔ لیکن جب تک اس کی کوئی ترتیب سامنے نہیں آتی اس وقت تک ہمارے پاس اس تنازع کے بعد آگے بڑھنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہو گا جبکہ یہ تنازع تاحال جاری ہے۔
یو این نیوز: اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے حامیوں میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہا اور خاص طور پر سیاسی حوالے سے اس کی کارکردگی حسب توقع نہیں ہے۔ آپ اس معاملے پر اقوام متحدہ اور خود اپنے کام کے حوالے سے کیا وضاحت پیش کرنا چاہیں گے؟
ٹور وینزلینڈ: جیسا کہ میں نے آغاز میں ہی کہا، یہ تنازع جس قدر بڑا اور شدید ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی گئی۔
یہ تنازع 14 ماہ سے جاری ہے۔ جس قدر بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور جس قدر تباہی پھیلی ہے اس کا ہمیں پہلے کبھی مشاہدہ نہیں ہوا۔ یقیناً ہم اس کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کام کر رہے ہیں جو لبنان اور خطے میں دوسری جگہوں پر دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں قبل ازٰں ایسی صورتحال نہیں دیکھی گئی۔
جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے ہی ہفتے میں میری اسی پر توجہ تھی۔ اس کے بعد حالات پر قابو پانے کا سوال ابھرتا ہے جبکہ نہایت فعال اور شدید جنگ بھی جاری ہے۔ بعدازاں ایک ایسا وقت آتا ہے جب یہ سوچا جاتا ہے کہ اس صورتحال سے کیسا نکلا جائے۔ فی الوقت ہم اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہم نومبر میں ایسا نہیں کر سکے جب ہم یرغمالیوں کو رہا کرنے کے عمل میں شریک ہونے کے لیے تیار تھے۔
ہم اس لیے یہ سب کچھ نہیں کر سکے کیونکہ جنگ جاری تھی اور غزہ میں لوگ نقل مکانی کر رہے تھے۔ لیکن اب ہم اس مرحلے تک پہنچ رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ہمیشہ سفارت کاری اور ایسی فیصلہ سازی کے ذریعے تنازع سے نکلنا ہوتا ہے جو ہمیں آگے لے جائے۔
یقیناً ہمیں جنگ بندی درکار ہے، ہمیں یرغمالیوں کی رہائی درکار ہے اور ہمیں پائیدار جنگ بندی اور سلامتی کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ہمیں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے تحفظ درکار ہے۔ گزشتہ دنوں جب پولیو ویکسین مہم کے لیے غزہ میں جنگ کو عارضی طور پر روکا گیا تو میں وہیں موجود تھا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ بڑے پیمانے پر تکالیف کا سامنا کرنے والے لوگوں کو جنگ میں مختصر وقفے کی بدولت سکھ کا سانس ملا۔
اس وقت جنگ بندی وجود نہیں رکھتی اور ہمیں عالمی برادری اور علاقائی شراکت داروں کے ذریعے اس سمت میں کوششیں کرنا ہوں گی۔
یو این نیوز: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی پیش رفت بھی جاری ہے؟ کیا ہم کسی سمت میں بڑھ رہے ہیں؟
ٹور وینزلینڈ: میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا۔ تاہم، جب آپ سفارت کار کی حیثیت سے کام کرتے ہیں تو آپ کو صبر سے کام لینا اور وقت کا انتظار کرنا ہوتا ہے اور ہم اسی وقت کے منتظر ہیں۔ لیکن ہمیں اسے موثر طریقے سے اور فوری طور پر کام میں لانا ہے کیونکہ بصورت دیگر ہمارے ہاتھ سے وقت نکلنے کا خطرہ ہو گا۔
یو این نیوز: آپ یہ عہدہ چھوڑنے سے پہلے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنا تحفظ، سلامتی اور امن یقینی بنانے کے لیے کون سی ایک صلاح دینا چاہیں گے؟
ٹور وینزلینڈ: بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو تکالیف کا سامنا ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی برادری کو آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ یہ تکالیف ہمیں درپیش نہیں ہیں۔ ہمیں حالات کو سمجھتے ہوئے مسئلے کا ایسا حل نکالنا ہو گا جو فریقین کے لیے کسی طور قابل قبول ہو جبکہ سمجھوتے ہمیشہ مبہم ہوں گے۔